ننھا سا دیا ہے کہ تہہ آب ہے روشن
ننھا سا دیا ہے کہ تہہ آب ہے روشن
بجھتی ہوئی آنکھوں میں کوئی خواب ہے روشن
سنسان جزیرے میں چمکتا ہوا تارا
دل ہے کہ کوئی کشتیٔ شب تاب ہے روشن
دہشت کے فرشتے ہیں فصیلوں پہ ہوا کی
اور چاروں طرف شہر کے سیلاب ہے روشن
میں ڈوبتا جاتا ہوں تری موج بدن میں
یوں رقص میں کرنیں ہیں کہ گرداب ہے روشن
ہاں جسم کے اس قریۂ بے نور کے اندر
اب بھی وہ ترے لمس کا مہتاب ہے روشن
میں ڈھونڈھتا پھرتا ہوں جسے بام فلک پر
وہ چاند سر حلقۂ احباب ہے روشن
شاہدؔ کہ جو وہ خاک نشیں محرم جاں ہے
سجدوں سے ابھی اس کے یہ محراب ہے روشن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.