نقاب فطرت اٹھا رہا ہوں وفا کا چہرہ دکھا رہا ہوں
نقاب فطرت اٹھا رہا ہوں وفا کا چہرہ دکھا رہا ہوں
کبھی جو اپنا نہ ہو سکا تھا اسی کو اپنا بنا رہا ہوں
جو سست بیٹھی ہیں آرزوئیں میں ان کے شانے ہلا رہا ہوں
جو تھک کے جذبات سو رہے ہیں انہیں میں پھر سے جگا رہا ہوں
ہوائیں ہو جائیں گی مخالف نہیں مجھے اس کی کوئی پروا
لہو کی بوندیں گرا گرا کر میں اپنا گلشن سجا رہا ہوں
میں دشمنی کے قریب جا کر تلاش کرتا ہوں دوستی کو
جو مجھ سے نفرت برت رہے ہیں انہیں میں اپنا بنا رہا ہوں
ستم تمہارا جفا تمہاری جو یاد آنے لگے ہیں مجھ کو
گمان کچھ ایسا ہو رہا ہے تمہیں بھی میں یاد آ رہا ہوں
نہیں ہے حیرت کی بات کوئی یہ ظرف میرا ہے میری جرأت
ہے جس جگہ بجلیوں کی کثرت وہیں نشیمن بنا رہا ہوں
میں جانتا ہوں وجود پھولوں کا اور کانٹوں کا ہے چمن میں
میں پھول بھی چن رہا ہوں اور خار سے بھی دامن بچا رہا ہوں
تمہارے کام آئے گا ہمیشہ یہ تحفۂ دل قبول کر لو
تمہارا چہرہ دکھانے تم کو اک آئنہ ساتھ لا رہا ہوں
جو میرا انداز گفتگو ہے وہی ہے عجز محبت اکملؔ
غزل کے پردے میں آج افسانہ اپنا ان کو سنا رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.