نومید کرم ہو کر مایوس دعا ہو کر
ہم بیٹھ گئے آخر راضی بہ رضا ہو کر
ان بند گپھاؤں سے کیوں ہم کو لگاؤ ہے
جن بند گپھاؤں سے آئے ہیں رہا ہو کر
چھوتے ہی مرا چہرہ نم کر گئی آنکھوں کو
یادوں کے سمندر سے آئی تھی ہوا ہو کر
کیوں ٹوٹتے رشتوں پر اشک آ گئے آنکھوں میں
ہونے دو اگر کوئی جاتا ہے خفا ہو کر
تو نے مجھے ایسے بھی دن رات دکھائے ہیں
رہ جاتی ہے جب دنیا بس ایک خلا ہو کر
اچھے رہے جو پل پل موسم کی طرح بدلے
کیا پا لیا ہم نے بھی پابند وفا ہو کر
دشمن پہ شبابؔ اپنے کیوں مجھ کو نہ رحم آئے
گالی مجھے دشمن کی لگتی ہے دعا ہو کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.