نظر آ جاتے تھے دو چار کہیں بستی میں
نظر آ جاتے تھے دو چار کہیں بستی میں
اب تو کوئی بھی نہیں خاک نشیں بستی میں
کیسے خوشیوں کو اڑا لے گئی محلوں کی طلب
کتنے خوش باش تھے ہم تیرے قریں بستی میں
اس نے دروازے کو اندر سے لگا لی کنڈی
میں نے پوچھا وہ جو ہوتے تھے مکیں بستی میں
ان مکانوں میں مکاں ہے وہ جو کونے والا
ایک رہتی تھی وہاں زہرہ جبیں بستی میں
اس کو کہتے ہیں تمدن یہ ہے تہذیب قدیم
مل کے رہتے تھے سبھی اپنے تئیں بستی میں
چلتے پھرتے ہوئے قدموں کی دھمک باقی ہے
سانس لیتا ہے کوئی زیر زمیں بستی میں
اب ظہورؔ آئی سمجھ کس سے تھی رونق ورنہ
سارے موجود ہیں اک ہم ہی نہیں بستی میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.