نظر اب فارغ البالی کے آتے ہیں نہیں سائے
نظر اب فارغ البالی کے آتے ہیں نہیں سائے
ہماری تنگ دستی نے کہاں تک پاؤں پھیلائے
غضب ہے یہ کسی کی آرزو پر اوس پڑ جائے
ارادہ مسکرانے کا کرے اور آنکھ بھر آئے
بشر مجبور ہو کر ہی تو پی جاتا ہے آنسو کو
اگر ایسا نہ ہو تو کیا خوشی سے کوئی غم کھائے
مری تر دامنی پر زاہدان خشک ہنستے ہیں
میں نازاں اس کی رحمت پر یہ سجدوں پر ہیں اترائے
اگر کچھ لطف پینے کا اٹھانا ہے تو اے رندو
چلے اس وقت دور جام جب کالی گھٹا چھائے
درازئ شب غم کی شکایت کے عوض ہمدم
اگر کچھ آپ بیتی ہی کہیں تو رات کٹ جائے
سفر تنہا ہی کرتے ہیں عدم کا اے ریاضیؔ سب
نہ ساتھ احباب دیتے ہیں نہ ہمدم اور ہمسائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.