نظر عذابوں میں گھر گئی ہے سخن سرابوں میں آ گیا ہے
نظر عذابوں میں گھر گئی ہے سخن سرابوں میں آ گیا ہے
سنا ہے اب کے بہار موسم خزاں کی باتوں میں آ گیا ہے
یہ کیا غضب ہے کہ جس نے عہد بہار چاہا نہ عشق دیکھا
نظام ہجر و وصال سارا اسی کے ہاتھوں میں آ گیا ہے
بہار تو اک مغالطہ ہے خزاں کی روپوش حیرتوں کا
جو اس طلسم جہاں سے گزرا وہ داستانوں میں آ گیا ہے
وہ جس کے دامن میں شاعری تھی بہار لہجے کی لٹ لٹا کر
اے رب لفظ و بیاں وہ شاعر تری پناہوں میں آ گیا ہے
بہار کیا اب خزاں بھی دیکھے غرور حسن سخنوری میں
جو آسمانوں میں جا بسا تھا زمیں کے قدموں میں آ گیا ہے
بہار رت میں بچھڑ کے تجھ سے جو دل پہ گزری وہ دل ہی جانے
ہمیں تو اتنا پتا ہے یارو لہو تک آنکھوں میں آ گیا ہے
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 28.11.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.