نظر کے سامنے صحرائے بے پناہی ہے
نظر کے سامنے صحرائے بے پناہی ہے
قریب و دور مرے بخت کی سیاہی ہے
افق کے پار کبھی دیکھنے نہیں دیتی
شریک راہ امیدوں کی کم نگاہی ہے
بھرا پڑا تھا گھر اس کا خوشی کے سیلے سے
یہ کیا ہوا کہ وہ اب راستے کا راہی ہے
وہ ذہن ہو تو حریفوں کی چال بھی سیکھیں
ہمارے پاس فقط عذر بے گناہی ہے
اکھڑتے قدموں کی آواز مجھ سے کہتی ہے
شکست ہی نہیں یہ دائمی تباہی ہے
عدد کمیں میں ہے آگے یہ کیا پتا اس کو
رہ فرار میں ہارا ہوا سپاہی ہے
- کتاب : siip (Magzin) (Pg. 266)
- Author : Nasiim Durraani
- مطبع : Fikr-e-Nau ( 39 (Quarterly) )
- اشاعت : 39 (Quarterly)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.