نظر کو وقف جمال کر کے نہ ذکر کر لطف زندگی کا
نظر کو وقف جمال کر کے نہ ذکر کر لطف زندگی کا
حصول مقصد جہاں میں مشکل یہاں ہوا کون کب کسی کا
اسی کی اب تک نوائے رنگیں بنی ہوئی ہے حیات انساں
سکوت پیہم کے بعد تو نے جو ساز چھیڑا تھا زندگی کا
جنون فطرت بھی پل رہا تھا نقوش حسرت ابھر رہے تھے
نوید الفت کو سن کے چونکے کرم تھا شاید یہ بے خودی کا
کبھی نہ آنکھوں سے اشک نکلے کبھی نہ شکوہ زباں پہ آیا
یقین ہے تم تڑپ اٹھوگے کہوں گا جب حال بے بسی کا
اسی کے سننے کی ہے تمنا وفاؔ اسی کی مجھے ہوس ہے
نوائے الفت کے ساتھ اس نے جو ساز چھیڑا تھا زندگی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.