نظر ملتے ہی برسے اشک خوں کیوں دیدۂ تر سے
نظر ملتے ہی برسے اشک خوں کیوں دیدۂ تر سے
رگیں قلب و جگر کی چھیڑ دیں کیا تم نے نشتر سے
یقیناً کچھ تعلق ہے ترے در کو مرے سر سے
وگرنہ لوح پیشانی کا کیا رشتہ ہے پتھر سے
مرے پہلو میں ہے آباد ارمانوں کی ایک دنیا
ہزاروں میتیں اٹھیں گی مرے ساتھ بستر سے
وہ اپنی زلف بکھرا کر تصور ہی میں آ جاتے
یہ سایہ بھی اٹھا اب تو مری امید کے سر سے
وفا نے حسرت کشتہ کا اس کو خوں بہا سمجھا
گرا جو اشک دامن پر لہو کا دیدۂ تر سے
سناؤں تم کو وہ لفظوں میں حال خوبی قسمت
مرے دامن پہ برسے بھی تو اشکوں کے گہر برسے
مری ہستی مٹانے والے شاید تو نہیں واقف
کہ مٹ کر بھی بنے گی ایک دنیا میرے پیکر سے
خیال آبلہ پائی وقارؔ اک عذر بے جا تھا
نہ گھر تھا دور منزل سے نہ منزل دور تھی گھر سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.