نظر ملتے ہی کیا کہئے میں کیا کیا دیکھ لیتا ہوں
نظر ملتے ہی کیا کہئے میں کیا کیا دیکھ لیتا ہوں
تری آنکھوں میں تیرے دل کا نقشہ دیکھ لیتا ہوں
چلے جانا ابھی جلدی تمہیں کیا پڑ گئی ایسی
ذرا دن دیکھ لیتا ہوں مہینہ دیکھ لیتا ہوں
دوئی ایسی مٹی آخر کہ اب آئینہ کے بدلے
تجھی کو اے بت آئینہ سیما دیکھ لیتا ہوں
بس اتنی بات پر مجھ سے خفا ہیں خانقہ والے
کہ میں اک دو گھڑی چل پھر کے دنیا دیکھ لیتا ہوں
ابھی ساغر نہ دے مجھ کو ذرا محتاط ہوں ساقی
ترے پینے پلانے کا طریقہ دیکھ لیتا ہوں
تمہارا ہوں مگر تم سے نہیں ہوں اے چمن والو
کوئی دم آ کے پھولوں کا تماشا دیکھ لیتا ہوں
وہی مستی بھری آنکھیں وہی شوخی بھری چتون
انہیں میں یاد کیا کرتا ہوں گویا دیکھ لیتا ہوں
بڑی جرأت سے گو عرض تمنا کر رہا ہوں میں
مگر رہ رہ کے پھر بھی ان کا چہرا دیکھ لیتا ہوں
تجھے کس طرح چھوڑوں کیا کروں اپنی نظر کو میں
تغافل میں ترے رنگ تقاضا دیکھ لیتا ہوں
بہت اے موت کرنے کا نہیں میں انتظار ان کا
یہی دو چار دن میں اور رستہ دیکھ لیتا ہوں
کبھی اب بھی ملا ان سے تو اے محسنؔ تصور میں
وہ اگلی صحبتیں اگلا زمانہ دیکھ لیتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.