نظر نظر سے وہ کلیاں کھلا کھلا بھی گیا
نظر نظر سے وہ کلیاں کھلا کھلا بھی گیا
گل مراد کو قدموں میں روندتا بھی گیا
بلند شاخ کے گل کی طرح نہ ہاتھ آیا
وہ رفعتوں پہ رہا اپنی چھب دکھا بھی گیا
مجھے نوید جدائی سنانے آیا تھا
جدا ہوا تو مری سمت دیکھتا بھی گیا
وہ زخم زخم پہ مرہم لگانے آیا تھا
ادائے بخیہ گری سے انہیں دکھا بھی گیا
وہ میرا شعلہ جبیں موجۂ ہوا کی طرح
دیئے جلا بھی گیا اور دیئے بجھا بھی گیا
وہ کم نگاہ تھا کم ظرف تو نہ تھا کہ مجھے
پیالہ دے بھی گیا تشنگی بڑھا بھی گیا
سخن کے آئنوں میں دیکھ دیکھ اپنے نقوش
جھجک جھجک بھی گیا اور جھومتا بھی گیا
مری ہی طرح تھا وہ بھی جنوں کی زد میں مگر
مجھے سنبھال کے خود کو سنبھالتا بھی گیا
وہ جس کا دامن شفاف اب بھی ہے بے داغ
وفور شوق میں مجھ کو گلے لگا بھی گیا
اس اک نظارے میں تھے کتنے دیدنی پہلو
وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرا بھی گیا
غم وداع میں پنہاں تھا اور بھی اک غم
کہ دل سے شوق ملاقات بارہا بھی گیا
فراق یوسف گم گشتہ کم نہ تھا صادق
کہ میرے ہاتھ سے کنعان کوئٹہ بھی گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.