نظر شائستہ غم ہو رہی ہے
نظر شائستہ غم ہو رہی ہے
مگر پہچان اپنی کھو رہی ہے
فراق دوست کی یہ آخری شب
نہ جانے کب کی نیندیں سو رہی ہے
جسے گستاخ ہو جانا روا تھا
وہ آنکھ اب تک قصیدہ گو رہی ہے
بڑی جوکھم ہے تھوڑا فاصلہ بھی
مسافت جاں بہ جاں طے ہو رہی ہے
یہ سارا تجزیہ یہ بحث و تکرار
ہوس پشتارے کیا کیا ڈھو رہی ہے
یہاں سے اٹھ کے جانا سانحہ تھا
یہاں آ کر بھی وحشت ہو رہی ہے
زمستاں ہے تری یادوں کا موسم
بہت مصروفیت ہم کو رہی ہے
لپیٹے عذر میں اپنے مہ و سال
گئے موسم کی چاہت سو رہی ہے
ترے غم سے کہ ہے اب یوں گریزاں
ہماری واقفیت تو رہی ہے
جہاں میلوں نہیں کوئی پڑوسی
خزاں کیوں کشت لالہ بو رہی ہے
سر آب رواں بد احتیاطی
دھلے دھبوں کو پھر سے دھو رہی ہے
اکیلے تھے تو جی لگتا نہیں تھا
مگر اب شام رسوا ہو رہی ہے
ہلا کر شور گریہ سے زمیں کو
پس دیوار خلقت سو رہی ہے
بدل کر رنگ رخ شاہینؔ اپنا
یہ شب بے مایہ کتنی ہو رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.