نظر ان کی نظر سے میری ٹکرائی تو کیا ہوگا
نظر ان کی نظر سے میری ٹکرائی تو کیا ہوگا
قیامت جس کو کہتے ہیں وہ یوں آئی تو کیا ہوگا
نہ آئے ہوش میں تیرے جو سودائی تو کیا ہوگا
اگر لی فصل گل نے آ کے انگڑائی تو کیا ہوگا
گھٹا اٹھ کر نشیمن کو نہ راس آئی تو کیا ہوگا
کہیں ان بدلیوں میں برق لہرائی تو کیا ہوگا
کبھی ہے دشت پیمائی کبھی ہے چاک دامانی
رہی یوں ہی جنوں کی کار فرمائی تو کیا ہوگا
ہے لازم حال میں اے ہم صفیرو فکر مستقبل
ابھی تو فصل گل ہے کل خزاں آئی تو کیا ہوگا
بظاہر بے غرض سجدے بہ باطن خواہش جنت
پڑی پلے جو اس سودے میں رسوائی تو کیا ہوگا
تمہارے وعدۂ فردا پہ میں ہوں مطمئن لیکن
کہیں پھر لن ترانی کی صدا آئی تو کیا ہوگا
تھکا ہارا مسافر دور منزل اور دن تھوڑا
اگر غربت میں ہوگی شام تنہائی تو کیا ہوگا
سنا تو دوں انہیں روداد غم اپنی ریاضیؔ میں
خدا نا خواستہ آنکھ ان کی بھر آئی تو کیا ہوگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.