نظر اٹھا کے جو دیکھا ادھر کوئی بھی نہ تھا
نظر اٹھا کے جو دیکھا ادھر کوئی بھی نہ تھا
سلگتی دھوپ کی سرحد پہ گھر کوئی بھی نہ تھا
ہر ایک جسم تھا اک پوسٹر شعاعوں کا
سلگتے دشت میں ٹھنڈا شجر کوئی بھی نہ تھا
چمکتے دن میں تو سب لوگ ساتھ تھے لیکن
اداس شب میں مرا ہم سفر کوئی بھی نہ تھا
ہر ایک شہر میں تھا اضطراب کا آسیب
جہاں سکون ہو ایسا نگر کوئی بھی نہ تھا
سبھی کو فن جراحت سے واقفیت تھی
ہماری طرح وہاں بے ہنر کوئی بھی نہ تھا
سب اپنے کمروں میں مستی کی نیند سوئے تھے
سیاہ شب میں سر رہ گزر کوئی بھی نہ تھا
جو تلخ شام کے سایوں کو قتل کر دیتا
تمام شہر میں اتنا نڈر کوئی بھی نہ تھا
مرے زوال کی سب کو تھی آرزو اسعدؔ
مرے کمال سے خوش دل مگر کوئی بھی نہ تھا
- کتاب : Kulliyat-e-Asad Badayuni (Pg. 55)
- Author : Asad Badayuni
- مطبع : National Council for Promotion of Urdu language-NCPUL (2008)
- اشاعت : 2008
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.