نظریں بھی ان سے ملتی ہیں آپس میں اشارے ہوتے ہیں
نظریں بھی ان سے ملتی ہیں آپس میں اشارے ہوتے ہیں
کل تک جو کسی کے ہو نا سکے وہ آج ہمارے ہوتے ہیں
اللہ رے فریب ذوق نظر ایسے بھی نظارے ہوتے ہیں
جھڑتے ہیں شراروں سے گل بھی گل میں بھی شرارے ہوتے ہیں
ان ہلکی ہلکی موجوں میں ڈوبا ہے سفینہ کیا کہئے
تقدیر کی باتیں ہیں ورنہ تنکے بھی سہارے ہوتے ہیں
امید سہارے کی ان سے اے ڈوبنے والے توبہ کر
یہ صرف تماشائی سارے دریا کے کنارے ہوتے ہیں
بیمار شب فرقت کی ہنسی آخر یہ اڑائیں گے کب تک
ہونے دے تبسم ریز اگر یہ چاند ستارے ہوتے ہیں
یہ لالہ و گل یہ شمس و قمر یہ نقش مصورؔ یہ منظر
اک شعلۂ طور سینا کے یہ سارے شرارے ہوتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.