Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نظارۂ رخ ساقی سے مجھ کو مستی ہے

گویا فقیر محمد

نظارۂ رخ ساقی سے مجھ کو مستی ہے

گویا فقیر محمد

MORE BYگویا فقیر محمد

    نظارۂ رخ ساقی سے مجھ کو مستی ہے

    یہ آفتاب پرستی بھی مے پرستی ہے

    خدا کو بھول گیا محو خود پرستی ہے

    تو اور کام میں ہے موت تجھ پہ ہستی ہے

    نہ گل ہیں اب نہ وہ ساقی نہ مے پرستی ہے

    چمن میں مینہ کے عوض بے کسی برستی ہے

    یہ ملک حسن بھی جاناں عجیب بستی ہے

    کہ دل سی چیز یہاں کوڑیوں سے سستی ہے

    مہ صیام میں گو منع مے پرستی ہے

    مگر ہوں مست کہ ہر روز فاقہ مستی ہے

    یہ بے ثبات بہار ریاض ہستی ہے

    کلی جو چٹکی تو ہستی پر اپنی ہنستی ہے

    بس ایک رات کا مہمان چراغ ہستی ہے

    سرہانے روئے گی اب شمع گور ہنستی ہے

    دلا یہ گور غریباں بھی زور بستی ہے

    بجائے ابر یہاں بے کسی برستی ہے

    گیا جو یاں سے تہ خاک وہ کبھی نہ پھرا

    زمین کے نیچے بھی دلچسپ کوئی بستی ہے

    نہا کے بال نچوڑے تو یار کہنے لگا

    گھٹا سیاہ اسی طرح سے برستی ہے

    بس ایک ہاتھ میں دو ٹکڑے کر دیا ہم کو

    ہمارے یار کی اک یہ بھی تیز دستی ہے

    کیا ہے چاک گریبان صبح محشر تک

    یہ اپنے جوش جنوں کی دراز دستی ہے

    ہمیں تو قتل کیا بس اسی نزاکت نے

    کہ وہ اٹھاتی ہیں تیغ اور نہیں اکستی ہے

    دکھا کے پھول سے چہرے کو دل لیا خوش ہو

    جو بدلے گل کے ملے عندلیب سستی ہے

    اب ایک توبہ پہ آتی ہے مغفرت ترے ہاتھ

    خرید کر کہ نہایت یہ جنس سستی ہے

    دکھائے جس نے یہ صورت ہمیں دم آخر

    اسی کو دیکھنے کو روح اب ترستی ہے

    نہ ٹوٹی شیشۂ مے میری سنگ مرقد سے

    پس از فنا بھی مجھے پاس مے پرستی ہے

    اسیر کر کے ہمیں خوش نہ ہوئیو صیاد

    کہ تو بھی یاں تو گرفتار دام ہستی ہے

    عجب نہیں دم عیسیٰ سے بھی جو گل ہو جاتے

    کہ شمع صبح ہمارا چراغ ہستی ہے

    وہ مانگتا ہے مری جان رونمائی میں

    یہی جو مول ہے تو جنس حسن سستی ہے

    کیا ہے اس نے تو یوسف کا چاک دامن پاک

    نہ پوچھو عشق کی جو کچھ دراز دستی ہے

    کہوں میں وہی ہے ساقی وہی سبو وہی جام

    مدام بادۂ وحدت کی مجھ کو مستی ہے

    علم ہے تیغ دو دم تیرے سر جھکائے ہوں میں

    تری گلی میں بھی ظالم بلندی پستی ہے

    جو چاہے رحمت حق عجز کر شعار اپنا

    رواں ادھر کو ہے پانی جدھر کو پستی ہے

    سفید ہو گئی موئے سیاہ غفلت چھوڑ

    ہوئی ہے صبح کوئی دم چراغ ہستی ہے

    ہر اک جوان کا قد خم ہوا ہے پیری سے

    مآل کار بلندی جہاں میں پستی ہے

    وہ اپنی جنبش ابرو دکھا کے کہتا ہے

    یہ وہ ہے تیغ اشاروں ہی سے جو کستی ہے

    چہ خوش بود کہ بر آید بیک کرشمہ دو کار

    صنم بغل میں ہے دل محو حق پرستی ہے

    ہے خوب پہلے سے گویاؔ کروں میں ترک سخن

    کہ ایک دم میں یہ خاموش شمع ہستی ہے

    RECITATIONS

    نعمان شوق

    نعمان شوق,

    نعمان شوق

    نظارۂ رخ ساقی سے مجھ کو مستی ہے نعمان شوق

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے