نبھایا عشق نے رشتہ جو پیاس پانی کا
نبھایا عشق نے رشتہ جو پیاس پانی کا
اڑا کے لے گیا ہوش و حواس پانی کا
کٹے شجر کے سسکتے ہوئے سے پتوں پر
دکھائی دیتا ہے چہرہ اداس پانی کا
شریف لوگوں کی آنکھوں میں آگ رکھ دے گی
پہن کے نکلے گی جب وہ لباس پانی کا
وہ ایسے دیکھتا رہتا ہے میری آنکھوں میں
لگانے بیٹھا ہوں جیسے قیاس پانی کا
کنارے ہو کے کھڑے شور سن رہے ہو کیا
اتر کے دیکھو تہوں میں ہراس پانی کا
تمہیں سنورنے کی سجنے کی کیا ضرورت ہے
چمکتا رہتا ہے رخ پر اجاس پانی کا
لپٹ گئے ہیں مرے پاؤں سے سبھی افلاک
جو میرے ہاتھ میں آیا گلاس پانی کا
اسی لئے تو مرا سر بلند رہتا ہے
ہمیشہ عزم رہا میرے پاس پانی کا
ندیمؔ گھوم کے سارے جہاں میں دیکھ لیا
کوئی بچا ہی نہیں اب شناس پانی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.