نگاہ التفات اب بد گماں معلوم ہوتی ہے
نگاہ التفات اب بد گماں معلوم ہوتی ہے
مری ہر بات دنیا کو گراں معلوم ہوتی ہے
تڑپ اٹھتے ہیں سجدے روشنی محسوس کرتا ہوں
جبیں میری قریب آستاں معلوم ہوتی ہے
قیامت ہے جوانی کے دنوں کا یاد آ جانا
چمن کی سیر بھی بار گراں معلوم ہوتی ہے
غم و اندوہ میں اے کاش ساری زندگی گزرے
یہی مجھ کو حیات جاوداں معلوم ہوتی ہے
تری دل میں نہیں اب خشک ہیں اشک مسرت بھی
ہر اک امید گرد کارواں معلوم ہوتی ہے
نہاں ہیں ان کے جلوے آئنہ حیراں ہے قسمت کا
نظر نا آشنائے امتحاں معلوم ہوتی ہے
کسی ذرے نے محفل کے کوئی کروٹ نہیں بدلی
ابھی بے کیف میری داستاں معلوم ہوتی ہے
نظر جلوؤں پہ ہے اور کچھ نظر آتا نہیں ہم کو
کوئی تو چیز ہے جو درمیاں معلوم ہوتی ہے
جو دل کے راز تھے کیونکر ہوئے آئینہ دنیا پر
زبان وقت تیری ہی زباں معلوم ہوتی ہے
زبان حال سے جب وقت کی بیداد سنتا ہوں
مجھے تو شوقؔ اپنی داستاں معلوم ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.