نگاہ خشمگیں میں پیار کی ضیا کر کے
نگاہ خشمگیں میں پیار کی ضیا کر کے
ہم آزمائے گئے عرض مدعا کرکے
نئی امید نئے غم سے آشنا کرکے
گزر گئی شب ہجراں خدا خدا کرکے
جنوں کے ساتھ بھی کچھ دور ہم کو چلنے دو
خرد کو دیکھ لیا ہم نے رہنما کرکے
حریف امن و اماں کا یہی ہے منصوبہ
کہ فرد فرد کو رکھ دے یہاں جدا کرکے
مزاج اہل سیاست کے جب بدلنے لگے
قدم تمہیں بھی اٹھانا ہے فیصلہ کرکے
یہ سلسلہ تو ستائش کا خوب ہے لیکن
مٹا نہ دے کہیں مغرور ارتقا کرکے
غرور جاہ و حشم نے تمام عمر ہمیں
کہیں کا رکھا نہ آوارۂ انا کرکے
کسی غریب کو دیکھو نہ تم حقارت سے
جو ہو سکے تو گزر جاؤ کچھ بھلا کرکے
وہی فسانۂ فکر معاش ہے اب بھی
ہم انتہا کو ترستے ہیں ابتدا کرکے
قدم اسی کا وقار حیات چومے ہے
پشیماں ہوتا ہے جو آدمی خطا کرکے
ہے اب بھی وقت سنبھل جاؤ اے طربؔ ورنہ
زمانہ تم کو نہ رکھ دے کہیں فنا کرکے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.