نگاہ مست ساقی کا اشارہ پا کے پیتا ہوں
نگاہ مست ساقی کا اشارہ پا کے پیتا ہوں
حدود ہوش کی منزل سے باہر جا کے پیتا ہوں
گھٹائیں جھوم کر آتی ہیں جب میخانے کی جانب
میں اپنی خوبیٔ تقدیر پر اترا کے پیتا ہوں
در پیر مغاں سے اذن بادہ عام ہوتے ہی
طبیعت مست ہو جاتی ہے میں لہرا کے پیتا ہوں
بہر عالم ہے احساس خطا امید رحمت پر
کبھی گھبرا کے پیتا ہوں کبھی شرما کے پیتا ہوں
امیرؔ دہلوی مے خانۂ غالبؔ سے میں اکثر
شراب فن خم شعر و سخن میں لا کے پیتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.