نگاہ مست کا کیف خمار کیا کہیے
نگاہ مست کا کیف خمار کیا کہیے
بہار گویا ہے اندر بہار کیا کہیے
مآل حسن پرستیٔ یار کیا کہیے
نظر نظر ہے مری جلوہ یار کیا کہیے
قدم قدم پہ نگاہوں نے ٹھوکریں کھائیں
فریب جلوۂ رنگیں بہار کیا کہیے
یہ انتظار کسی کا ارے معاذ اللہ
لٹا چکا ہوں متاع قرار کیا کہیے
انہیں خیال کی محفل میں ڈھونڈنے نکلی
مری نظر کا غلط اعتبار کیا کہیے
ہمیں اشارۂ کن کے فریب نے مارا
جہاں میں آ گئے دیوانہ وار کیا کہیے
ہر ایک ذرے میں اک طور کر لیا پیدا
نگاہ شوق ترا اقتدار کیا کہیے
پتنگے روز ہزاروں بنائے جاتے ہیں
مرا تقدس خاک مزار کیا کہیے
ستم تو یہ ہے کہ ہم خود ستم کے خوگر ہیں
شکایت ستم روزگار کیا کہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.