نگاہ شرمگیں سحر آفریں معلوم ہوتی ہے
نگاہ شرمگیں سحر آفریں معلوم ہوتی ہے
یہ دشمن ہے مگر دشمن نہیں معلوم ہوتی ہے
معطر ہے مشام جاں بہار حسن رنگیں سے
کھلی پھر آج زلف عنبریں معلوم ہوتی ہے
کہیں حیرت میں نرگس ہے کہیں گل چاک دامن ہے
محبت کی فضا کتنی حسیں معلوم ہوتی ہے
اڑائی خاک میں نے اس قدر کوئے محبت کی
کہ اپنے سر پہ بھی مجھ کو زمیں معلوم ہوتی ہے
خلش ہائے تمنا کی شکایت کیا دل ناداں
محبت میں مصیبت بھی کہیں معلوم ہوتی ہے
خدا جانے چمن میں آج کیا گزری نشیمن پر
پریشاں خود بخود جان حزیں معلوم ہوتی ہے
یہ آکر دل میں پھر دل سے نہیں مٹتی نہیں جاتی
حسینوں کی تمنا بھی حسیں معلوم ہوتی ہے
بہار گلشن ہستی پہ کیوں نازاں ہے اے گلچیں
چھپی شاید خزاں اس میں نہیں معلوم ہوتی ہے
وفاؔ ہو یا جفا ہو کچھ نہیں اس سے غرض مجھ کو
کسی کی ہر ادا دل کو حسیں معلوم ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.