نگاہ تشنہ سے حیرت کا باب دیکھتے ہیں
نگاہ تشنہ سے حیرت کا باب دیکھتے ہیں
بساط آب پہ رقص سراب دیکھتے ہیں
اکھڑتے خیموں پہ کیا قہر شام ٹوٹا ہے
لہو میں ڈوبا ہوا آفتاب دیکھتے ہیں
نہیں ہے قطرے کی اوقات بھی جنہیں حاصل
وہ کم نظر بھی سمندر کے خواب دیکھتے ہیں
انہیں تو وقت کی گردش اسیر کر بھی چکی
وہ اب گذشتہ زمانے کا خواب دیکھتے ہیں
ہمیں تو موج رواں بھی نظر نہیں آتی
وہ لوگ اور ہیں جو زیر آب دیکھتے ہیں
دیار شوق کی مٹی میں کیا گہر ہی نہیں
نمو کی رت کو بھی بے آب و تاب دیکھتے ہیں
سزا ملے گی ہمیں تو ضیا بدوشی کی
چراغ جاں پہ ہوا کا عتاب دیکھتے ہیں
ملا نہیں انہیں سیرابئ وجود کا لمس
یہ دشت صدیوں سے راہ سحاب دیکھتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.