نگاہ و دل کا افسانہ قریب اختتام آیا
دلچسپ معلومات
(جنوری 1949ء)
نگاہ و دل کا افسانہ قریب اختتام آیا
ہمیں اب اس سے کیا آئی سحر یا وقت شام آیا
زبان عشق پر اک چیخ بن کر تیرا نام آیا
خرد کی منزلیں طے ہو چکیں دل کا مقام آیا
اٹھانا ہے جو پتھر رکھ کے سینہ پر وہ گام آیا
محبت میں تری ترک محبت کا مقام آیا
اسے آنسو نہ کہہ اک یاد ایام گذشتہ ہے
مری عمر رواں کو عمر رفتہ کا سلام آیا
ذرا لو اور دل کی تیز کر سیلا سا یہ شعلہ
نہ روشن کر سکا گھر کو نہ محفل ہی کے کام آیا
نظام مے کدہ ساقی بدلنے کی ضرورت ہے
ہزاروں ہیں صفیں جن میں نہ مے آئی نہ جام آیا
ابھی تک صید یزداں و صنم اولاد آدم ہے
بشر انساں نہیں رہتا جہاں ایماں کا نام آیا
بہار آتے ہی خوں ریزی ہوئی وہ صحن گلشن میں
خجل کانٹے تھے یوں پھولوں کو جوش انتقام آیا
بھلائے آبلہ پاؤں کو بیٹھے تھے چمن والے
گرجتی آندھیاں آئیں کہ صحرا کا سلام آیا
سحر کی حور کے کیا کیا نے دیکھے خواب دنیا نے
مگر تعبیر جب ڈھونڈی وہی عفریت شام آیا
کبھی شاید اسی سے رنگ فردوس بشر پائے
ابھی تک تو لہو انساں کا شیطاں ہی کے کام آیا
مکمل تبصرہ کرتا ہوا ایام رفتہ پر
نگاہ بے سخن میں ایک اشک بے کلام آیا
توانا کو بہانہ چاہیے شاید تشدد کا
پھر اک مجبور پر شوریدگی کا اتہام آیا
نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے
تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا
برہمن آب گنگا شیخ کوثر لے اڑا اس سے
ترے ہونٹوں کو جب چھوتا ہوا ملاؔ کا جام آیا
- کتاب : Kulliyat-e-Anand Narayan Mulla (Pg. 339)
- Author : Khaliq Anjum
- مطبع : National Council for Promotion of Urdu Language-NCPUL (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.