نگاہوں میں اقرار سارے ہوئے ہیں
نگاہوں میں اقرار سارے ہوئے ہیں
ہم ان کے ہوئے وہ ہمارے ہوئے ہیں
جن آنکھوں میں آنسو چکارے ہوئے ہیں
ہم ان کی نگاہوں کے مارے ہوئے ہیں
نہ کھٹکیں کہو کس طرح تیر مژگاں
جگر پر ہمارے اتارے ہوئے ہیں
جھڑے جو تری کفش زریں کے ذرے
فلک پر وہ جا کر سیارے ہوئے ہیں
عبث جان دیتی ہے بلبل گلوں پر
یہ اس رخ کے صدقے اتارے ہوئے ہیں
کس انداز سے بند محرم کسے ہیں
کہ جوبن کو ان کے ابھارے ہوئے ہیں
یقیں ہے بلا ہو کوئی آج نازل
وہ بالوں کو اپنے سنوارے ہوئے ہیں
خبردار ہاتھوں سے جانے نہ پائیں
یہ دزد حنا مال مارے ہوئے ہیں
کہے دیتی ہیں صاف آنکھیں تمہاری
کسی غیر سے کچھ اشارے ہوئے ہیں
میں منجدھار میں ڈوبتا ہوں الٰہی
وہ دل لے کے میرا کنارے ہوئے ہیں
ہمیشہ جو بھرتے تھے دم دوستی کا
وہی دشمن جاں ہمارے ہوئے ہیں
نظر کر دعا پر خداوند عالم
کہ ہم ہاتھ اپنے پسارے ہوئے ہیں
بھلا غیر کی اس میں ہے کیا شکایت
وہی دشمن جاں ہمارے ہوئے ہیں
انہیں ہم نے نہلا دیا دے کے چھینٹیں
عجب لطف دریا کنارے ہوئے ہیں
خبر آمد گل کی شاید ہے آغاؔ
چمن سارے جھاڑے بہارے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.