نگہ رکھ دی زباں رکھ دی متاع قلب و جاں رکھ دی
نگہ رکھ دی زباں رکھ دی متاع قلب و جاں رکھ دی
مٹا کر اپنی ہستی پیش سنگ آستاں رکھ دی
گماں گزرا ترے نقش کف پا کا جہاں رکھ دی
نہیں یہ ہوش ہم کو ہم نے پیشانی کہاں رکھ دی
بنایا اور دل میں جوشش آتش فشاں رکھ دی
غضب کی ایک مشت خاک زیر آسماں رکھ دی
وہ اب اپنا کہیں یا غیر ظرف اہل گلشن ہے
ہمیں یہ فخر کیا کم ہے بنائے گلستاں رکھ دی
مرے سینے میں یا رب یہ دل بیتاب کیا کم تھا
جو اس میں ایک طرفہ خواہش دید بتاں رکھ دی
بڑا ہی بول بالا تھا مگر ہم اہل وحشت نے
اڑا کر ایک ہی ٹھوکر میں گرد آسماں رکھ دی
حضور دوست کب تھی جرأت عرض سخن دل کو
بیاں کر کے نگاہ شوق نے سب داستاں رکھ دی
تماشائی بنانے کے لئے آنکھیں عطا کی ہیں
ثنا خواں بن کے رہنے کے لئے منہ میں زباں رکھ دی
زباں اردو بیاں دل جو اور انداز غزل خوشبو
زمین شعر میں کیفیت باغ جناں رکھ دی
مبارک یہ غزل کہہ کر نعیمؔ اپنے لئے تم نے
جہان شعر میں بنیاد قصر جاوداں رکھ دی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.