نیند سے جاگی ہوئی آنکھوں کو اندھا کر دیا
نیند سے جاگی ہوئی آنکھوں کو اندھا کر دیا
دھند نے شفاف آئینوں کو دھندلا کر دیا
جوڑتا رہتا ہوں ٹوٹے رابطوں کا فاصلہ
مجھ کو لمحوں کے سرابوں نے اکیلا کر دیا
چیختا پھرتا ہے سڑکوں پر صداؤں کا ہجوم
کس خموشی نے گلی کوچوں کو بہرا کر دیا
ہر صدا ٹکرا کے بے حس خامشی سے گر پڑی
ہر صدا نے خامشی کو اور گہرا کر دیا
ہم نے پھر شفاف رستوں پر بچھائی آنکھ آنکھ
ہم نے پھر آئینۂ دل ریزہ ریزہ کر دیا
ہم نے پہنائے ہیں خواہش کو رگوں کے پیرہن
اس نے مانگی بوند ہم نے خون دریا کر دیا
شہر کی بیتاب گلیوں نے اگل ڈالے ہیں لوگ
کس نے میرے شہر میں مردوں کو زندہ کر دیا
جم گئے دیوار و در پر گونجتے لفظوں کے نقش
ایک ہنگامے نے سارا شہر گونگا کر دیا
آنکھ میں دھندلا گیا نکھرے ہوئے چہروں کا رنگ
جگمگاتے آئنوں کو کس نے میلا کر دیا
ایک اک چہرے پہ سرمدؔ پڑ گئی شک کی لکیر
جانے کس بد روح نے لوگوں پہ سایہ کر دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.