نکال لایا ہے گھر سے خیال کا کیا ہو
نکال لایا ہے گھر سے خیال کا کیا ہو
لگا ہے زخم تو اب اندمال کا کیا ہو
لے آئے کوچہ دلبر سے دل کو سمجھا کر
ہے بے قرار بہت دیکھ بھال کا کیا ہو
لٹا کے ماضی نظر اس صدی پہ رکھی ہے
پہ نقشہ دیکھیے تحصیل حال کا کیا ہو
ابھی زمانۂ موجود کی گرفت میں ہوں
میں سوچتا ہوں کہ فکر مآل کا کیا ہو
تھا باب شوق کہ اوراق شب پہ لکھتے رہے
اڑا کے لے گئی شب تو ملال کا کیا ہو
خیال خام کو دنیا اپج سمجھتی ہے
ہماری دیدہ وری کے کمال کا کیا ہو
نگار زیست کو اول بہت حسیں پایا
الجھ گیا ہوں تو اب اس وبال کا کیا ہو
جو اصل ماجرا تھا برملا کہا میں نے
پھر اس کے بعد ترے احتمال کا کیا ہو
خیال رہتا ہے شاہدؔ وہ ترش رو ہے بہت
وہاں جو جاؤں تو وضع سوال کا کیا ہو
- کتاب : khvaab saraa (Pg. 33)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.