نکلا ہوں تن بدن کا برادہ لیے ہوئے
نکلا ہوں تن بدن کا برادہ لیے ہوئے
لپکی ہے آنکھ آنکھ تماشا لیے ہوئے
جانے انہیں ہے دست شناسوں نے کیا کہا
پھرتے ہیں لوگ ہاتھ میں کاسہ لیے ہوئے
سڑکوں پہ ان دنوں ہے قیامت کا اک سماں
سب جا رہے ہیں خواب کا لاشہ لیے ہوئے
جنت سے اس لیے ہے نکالا گیا تمہیں
پھیلو زمیں پہ نسل توانا لیے ہوئے
دو چار اہل ذوق مجھے مل گئے وہاں
پہنچا جہاں ادب کا اثاثہ لیے ہوئے
دل دار بازوؤں میں سمائے گا لازماً
گھر سے چلو جو پختہ ارادہ لیے ہوئے
اس بے وفا کی بات کبھی ٹالتا نہیں
آئے یہاں ہو جس کا حوالہ لیے ہوئے
سنتا ہے آفتابؔ جہاں عشق کی پکار
جاتا وہیں ہے دل کا خزانہ لیے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.