نکلے تھے اپنے ہاتھوں سے جو گھر سمیٹ کر
نکلے تھے اپنے ہاتھوں سے جو گھر سمیٹ کر
ہر سمت رکھ دیا وہی منظر سمیٹ کر
جانا ہی گر ہوا ہے مقدر تو جائیے
آنسو تمام آنکھ کے اندر سمیٹ کر
اب شرط احتیاط کو مد نظر رکھیں
نکلیں جہاں کہیں بھی مگر پر سمیٹ کر
کیا جانیے گماں تھا حقیقت تھا خواب تھا
رکھا تھا اک وجود میں محشر سمیٹ کر
سنتے ہیں آج آخری سائل بھی مر گیا
رستوں میں منصفی کے وہ چکر سمیٹ کر
خرمؔ امیر شہر کی دریا دلی تو دیکھ
بیٹھے ہیں کتنے لوگ یہاں سر سمیٹ کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.