نکلے تری دنیا کے ستم اور طرح کے
نکلے تری دنیا کے ستم اور طرح کے
درکار مرے دل کو تھے غم اور طرح کے
تم اور طرح کے سہی ہم اور طرح کے
ہو جائیں بس اب قول و قسم اور طرح کے
بت خانے کا منظر بخدا آج ہی دیکھا
تھے میرے تصور میں صنم اور طرح کے
کرتی ہیں مرے دل سے وہ خاموش نگاہیں
کچھ رمز اشاروں سے بھی کم اور طرح کے
غم ہوتے رہے دل میں کم و بیش ولیکن
بیش اور طرح کے ہوئے کم اور طرح کے
مایوس طلب جان کے اس دشت ہوس میں
یاروں نے دیئے ہیں مجھے دم اور طرح کے
رہتی ہے کسی اور طرف آس نظر کی
ہیں وقت کے ہاتھوں میں علم اور طرح کے
رہبر کا تو انداز قدم اور ہی کچھ تھا
ہیں قافلے والوں کے قدم اور طرح کے
کچھ اور ہیں اس حسن بسنتی کی ادائیں
ہیں ناز نگاران عجم اور طرح کے
کہتے ہو کہ پھیکی سی رونکھی سی ہیں غزلیں
لو شعر سنائیں تمہیں ہم اور طرح کے
یہ کس نے کیا یاد کہاں جاتے ہو حقیؔ
کچھ آج تو پڑتے ہیں قدم اور طرح کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.