نوچتی ہیں مجھے کرب کی چیونٹیاں
نوچتی ہیں مجھے کرب کی چیونٹیاں
ساقیا ساقیا تلخیاں تلخیاں
میں کہاں آ گیا ہر طرف ہے یہاں
بد گماں ساعتوں کا بھیانک دھواں
ہیں یہ انفاس یا ہے پپیہے کی رٹ
پھینک آؤں سماعت کو جا کر کہاں
ایک لمحہ ازل ایک لمحہ ابد
صرف دو ساعتوں کی ہے یہ داستاں
میں وہ ایذا کش فکر ہوں آج تک
جو اڑاتا رہا اپنی ہی دھجیاں
سب دلیلیں ہیں مکار چہرے پڑھو
جن پہ ہونے کی جھنجھلاہٹیں ہیں عیاں
مل گئی مجھ کو ٹھنڈی ندامت شکست
کاش مل جائے اب منزل رائیگاں
جسم کی اونچی دیوار آ پھاند کر
کچھ تو کامل کریں قصۂ خو چکاں
جب بھی چاہا کوئی نظم اس پر لکھوں
خود بہ خود تھرتھرانے لگیں انگلیاں
اب ہے یہ حال تنہائی خود چیخے ہے
الحفیظ الحفیظ الاماں الاماں
میں سمندر سے اپنے تقابل میں گم
چند بچے تھے چنتے رہے سیپیاں
شادی حمدونؔ ہے قربتوں کی جزا
ہر قدم حادثے ہر نفس امتحاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.