نمو کی آگ سے مٹی تہی تھی کرتے کیا
نمو کی آگ سے مٹی تہی تھی کرتے کیا
زمیں کی کوکھ سے دیوار و در ابھرتے کیا
وہ آسماں پہ کہیں تھا زمین پر ہم تھے
ہمارے ہاتھ کبوتر کے پر کترتے کیا
نظر تھی ابر کی فن کاریوں میں کھوئی ہوئی
تو ہم خیال کے خاکوں میں رنگ بھرتے کیا
پسند آ گئیں صحرا نوردیاں ہم کو
جنوں نواز تھی فطرت خرد پہ مرتے کیا
خلا کا رزق تھے آخر خلا کے کام آئے
فلک سے آ کے ستارے زمیں پہ کرتے کیا
ہم ایسے سہل پسندوں سے دور رہتے ہیں
جدھر تھی بھیڑ اسی راہ سے گزرتے کیا
جمال سادہ کے شعلوں سے جل رہے تھے خیال
وہ یوں ہی حسن کا معیار تھے سنورتے کیا
کسی طلسم نے ذہنوں کو باندھ رکھا تھا
ہم اپنے آپ میں کب تھے کہیں ٹھہرتے کیا
شکستگی کے کچھ اسباب چاہئیں یاورؔ
چلا نہ سنگ کوئی ٹوٹتے بکھرتے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.