نور کی کرن اس سے خود نکلتی رہتی ہے
نور کی کرن اس سے خود نکلتی رہتی ہے
وقت کٹتا رہتا ہے رات ڈھلتی رہتی ہے
اور ذکر کیا کیجے اپنے دل کی حالت کا
کچھ بگڑتی رہتی ہے کچھ سنبھلتی رہتی ہے
ذہن ابھار دیتا ہے نقش حال و ماضی کے
ان دنوں طبیعت کچھ یوں بہلتی رہتی ہے
تہ نشین موجیں تو پر سکون رہتی ہیں
اور سطح دریا کی موج اچھلتی رہتی ہیں
زندگی عبارت ہے زندگی کے موڑوں سے
پیچ و خم ہوں کتنے ہی راہ چلتی رہتی ہے
چاہے اپنے غم کی ہو یا غم زمانہ کی
بات تو بہر صورت کچھ نکلتی رہتی ہے
زندگی ہے نام اس کا تازگی ہے کام اس کا
ایک موج خوں دل سے جو ابلتی رہتی ہے
کیف بھی ہے مستی بھی زہر بھی ہے امرت بھی
وہ جو جام ساقی سے روز ڈھلتی رہتی ہے
خود وجودیت ہو یہ یا ہو اس کی تنہائی
روح کو مگر کوئی شے مسلتی رہتی ہے
آج بھی بری کیا ہے کل بھی یہ بری کیا تھی
اس کا نام دنیا ہے یہ بدلتی رہتی ہے
ہوتی ہے وہ شعروں میں منعکس کبھی اعجازؔ
مدتوں گھٹن سی جو دل میں پلتی رہتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.