نور تھا جتنا جہاں میں سب ہنر آنکھوں کا تھا
نور تھا جتنا جہاں میں سب ہنر آنکھوں کا تھا
جو بھی دیکھے ڈوب جائے وہ اثر آنکھوں کا تھا
نیند مجھ کو لے کے آئی تھی تمہارے خواب تک
اور اس کے بعد تو خالی سفر آنکھوں کا تھا
معجزہ ہونے سے پہلے سب کی آنکھیں بند تھیں
چاہتے سب دیکھ لیتے ڈر مگر آنکھوں کا تھا
ایک چہرہ تھا جو ہم چاروں پہر دیکھا کیے
دو پہر نیندوں کے تھے اور دو پہر آنکھوں کا تھا
خواب کا دریا تھا بہتا نیند کے پیڑوں تلے
اک سفینہ حسن کا تھا اور بھنور آنکھوں کا تھا
جن کے سپنے ہی نہیں تھے لوگ وہ آزاد تھے
جو اسیری میں رہے ان پر اثر آنکھوں کا تھا
یار مژگاں میں چھپا رکھے تھے میں نے خط سبھی
اس نے تو سب پڑھ لیا وہ نامہ بر آنکھوں کا تھا
مجھ مسافرؔ کو بہت ہیں خواب کی تاریکیاں
شام ہوتے ہی گئے گھر ہاں وہ گھر آنکھوں کا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.