پا بہ زنجیر ہیں بے باک صدائیں کیسی
پا بہ زنجیر ہیں بے باک صدائیں کیسی
قید ہیں شہر تمنا میں ہوائیں کیسی
ہم نے چہرے تو نقابوں میں چھپا رکھے تھے
آئنوں میں نظر آتی ہیں بلائیں کیسی
ہر طرف اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے مجھے
اوڑھ لیں میری نگاہوں نے دشائیں کیسی
سانس لیجے تو کماں زخم کی تن جاتی ہے
صرف جینے کا قصور اور سزائیں کیسی
دیوتا پھر سے بلوتے ہیں سمندر شاید
ورنہ دھرتی پہ ہر اک سمت وبائیں کیسی
پاس پہنچے تو وہی صفر الف کے اوپر
دور سے تھیں یہی خوش رنگ قبائیں کیسی
ہاتھ سے ہاتھ نہ جاتا رہے گمراہی کا
کیا پتہ آپ نئی راہ بتائیں کیسی
کوئی گردن زدنی ہو تو ہزاروں حیلے
بخشنا ہی کوئی چاہے تو خطائیں کیسی
ترش غزلیں بھی مظفرؔ کی مزا دیتی ہیں
میرے بارے میں یہ چلتی ہوئی رائیں کیسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.