پاگل سی ہوا ڈھلتی ہوئی شام سمندر
پاگل سی ہوا ڈھلتی ہوئی شام سمندر
ایسے ہی کہیں لے نہ ترا نام سمندر
ویرانوں میں بھٹکیں کہ ترے شہر میں ٹھہریں
آنکھوں میں در آتا ہے سر شام سمندر
ہے تازہ ہواؤں پہ یہ الزام کہ چپ ہیں
کچھ ایسا ہی تجھ پر بھی ہے الزام سمندر
کاغذ کی بنی ناؤ میں بیٹھے ہوئے ہم لوگ
گرداب سے نکلے ہیں ذرا تھام سمندر
دے اذن کہ پانی پہ مکاں اپنے بنائیں
اب ساری زمیں ہو گئی نیلام سمندر
سنتے ہیں وہاں عکس ابھرتے ہیں بدن کے
چلتے ہیں چلو ہم بھی سر شام سمندر
کس وقت زمیں میرے قدم لینے لگی ہے
جب رہ گیا مٹی سے بس اک گام سمندر
تو عکس فلک ہے تو فلک آئنہ تیرا
اک رقص مسلسل ہے ترا کام سمندر
چڑھتے ہوئے دریا ہوں کہ سوکھی ہوئی نہریں
رکھتے ہیں ترے سر سبھی الزام سمندر
کیا بھر گئے پانی سے لبالب کہ متینؔ آج
دینے لگے صحراؤں کو دشنام سمندر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.