پانی کی دریا پرداز عبارت بھی مجہول گئی
پانی کی دریا پرداز عبارت بھی مجہول گئی
سوتوں والی بیل پھوٹنے جھڑنے میں مشغول گئی
نقش پائے سبز پہ ریجھ گئے تو یہ زنجیر کٹی
زرد پاؤں کی وحشت تھی کہ سفر کی کڑیاں بھول گئی
آوازیں رنگ و بو کی تھیں سو پک تھک کر ٹوٹ گریں
خاموشی کی شاخ بھری سو حسب سماعت جھول گئی
کیا متعدی فعل ہوا مٹی کی ازلی تختی پر
بودش کی تسطیر مسلسل مٹنے تک مفعول گئی
پود گھروں میں شور اٹھا دابوں نے کہا ہم باغی ہیں
گملوں کی تحریک باغ منڈیروں تک نرمول گئی
آمد خواب دور دراز کو بھالتے چہرے بکھر گئے
ماہ و سال کے جھکڑ سے بس دروازوں تک دھول گئی
روزن چشم کے ہونے سے یہ نوشتہ نظر انداز ہوا
دیکھو اس دیوار دل کی اک اک اینٹ فضول گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.