پانی کو آگ کہہ کے مکر جانا چاہئے
پلکوں پہ اشک بن کے ٹھہر جانا چاہئے
صوت و سخن کے دائرے تحلیل ہو گئے
قوس نظر سے دل میں اتر جانا چاہئے
احساس کی زباں کو لغت سے نکال کر
معنی کی سرحدوں سے گزر جانا چاہئے
دنیا کی وسعتیں ہیں بہ اندازۂ نظر
یہ دیکھنے کا کام ہے کر جانا چاہئے
تنہا نظر پہ کیجیے کس دل سے اعتبار
دل کو بھی تا بہ حد نظر جانا چاہئے
غم ہائے زندگی سے نہ تھا عمر بھر فراغ
اب کچھ تو زندگی کو سنور جانا چاہئے
جاؤں کہاں کہ خود مری راہیں سفر میں ہیں
راہیں سفر میں ہوں تو کدھر جانا چاہئے
زنجیری مکاں ہے جہاں حسن لا مکاں
اس انجمن میں بار دگر جانا چاہئے
زمزم حریم کعبہ میں ہے مامتا کا دل
ہے شرط زیست ڈوب کے مر جانا چاہئے
جاں ہو اگر متاع طلب سے عزیز تر
پروانوں کو چراغ سے ڈر جانا چاہئے
یارو سنا ہے آپ میں گم ہو گیا ظفرؔ
اس خانماں خراب کے گھر جانا چاہئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.