پاؤں کی خاک تھے تو ترے در کے ہو گئے
پاؤں کی خاک تھے تو ترے در کے ہو گئے
اندر ہوا لے آئی ہمیں گھر کے ہو گئے
احساس جاں کنی سے ادا کر دئیے تمام
سارے حساب عرصۂ محشر کے ہو گئے
پرچھائیوں میں جینے لگے تھے ہم اس قدر
سائے ہمارے آج برابر کے ہو گئے
ثابت کرے یہ کون کہ ان میں بھی جان تھی
وہ سارے جسم آج جو پتھر کے ہو گئے
ہیں کھیل اس تماشہ گہہ زیست کے عجب
رتبے بڑے سبھی یہاں جوکر کے ہو گئے
کیا جانتے وہ زخم جگر کس کے دم سے ہے
کانٹوں کو چھوڑ کر جو گل تر کے ہو گئے
پتے تو جڑ کے پھول سے زینت تھے پیڑ کی
شاخ ہنر سے کٹ گئے صرصر کے ہو گئے
تنکوں کی زندگی میں بھی آتا ہے انقلاب
نالے میں بہتے بہتے سمندر کے ہو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.