پاؤں لے آئے مجھے وادیٔ پر خار کے پاس
پاؤں لے آئے مجھے وادیٔ پر خار کے پاس
سر میں سودا ہے کہ چلئے اسی دیوار کے پاس
محتسب ضد سے تری دل میں یہی آتا ہے
مے کشی جا کے کریں تیری ہی دیوار کے پاس
یہ نئی طرز ستم تم نے نکالی صاحب
میرا خط جاتے ہو پڑھوانے کو اغیار کے پاس
فصل گل آئی ہے پھر دشت نوردی ہو نصیب
پاؤں کے آبلے پہنچائیں گے پھر خار کے پاس
نہ اٹھا ہم کو کہ سائے کی طرح سے بے کار
ایک مدت سے پڑے ہیں تری دیوار کے پاس
دور سے دیکھتے ہی مجھ کو کہا دور اس نے
اب نہ جائیں گے کبھی ایسے دل آزار کے پاس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.