پاتے ہیں اپنے کو اب تک لطف سے بیگانہ ہم
پاتے ہیں اپنے کو اب تک لطف سے بیگانہ ہم
اے حرم والے کریں آباد کیا بت خانہ ہم
میرے دیوانے کہا تھا تو نے اک دن ناز سے
اب تک اپنے کو سمجھتے ہیں ترا دیوانہ ہم
حسن کو اپنے لئے اک آئنہ درکار تھا
محو حیرت تھے ہوئے وقف رخ جانانہ ہم
تم کہو تو پھیر لیں اپنی حقیقت سے بھی آنکھ
تم سنو تو چھیڑ دیں کوئی نیا افسانہ ہم
چاہتے ہیں وہ ہماری ہی طرف مائل رہے
اس کی بزم ناز کو سمجھے ہیں خلوت خانہ ہم
دیکھیں کیا آئے نظر خاکستر پروانہ میں
دیکھتے ہیں شمع میں سوز دل پروانہ ہم
وقت ڈالے گا ہماری بھی حقیقت پر نقاب
وہ بھی دن آئے گا جب ہو جائیں گے افسانہ ہم
لوٹتے کیا تیرے میخانے سے بے نیل مرام
مے نہ ہاتھ آئی تو غم سے بھر چلے پیمانہ ہم
جا بہ جا آتا گیا اس کی نوازش کا بیاں
اپنے دل کا دیر تک کہتے رہے افسانہ ہم
لڑکھڑاتا دیکھ کر ساقی سہارے کو بڑھا
آ قدم لے لیں ترے اے لغزش مستانہ ہم
اس کا افسون نظر ہے اپنا عنوان کلام
اس کے افسوں ہی کا آصفؔ کہتے ہیں افسانہ ہم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.