پڑھنے والا کوئی نہیں تھا سارے لکھنے والے تھے
پڑھنے والا کوئی نہیں تھا سارے لکھنے والے تھے
ہر اجلے کاغذ پر کتنے دھبے کالے کالے تھے
ہر دم بندھا رہا پیروں سے صحرا کا انجان سفر
ہم نے اس کو سورج مانا جس کے پاؤں میں چھالے تھے
ہم اس انجانی بستی میں کیسے پہچانے جاتے
تم بھی اتنی دور کھڑے تھے جتنی دور اجالے تھے
بس اک داغ ناکامی تھا جو سانسوں پر لکھا رہا
ویسے تو بارش نے اپنے سب کپڑے دھو ڈالے تھے
ہم نے تو اڑتے دیکھا ہے سب کو کھلی فضاؤں میں
کس کے پاؤں میں زنجیریں تھیں کن ہونٹوں پر تالے تھے
اس کا مطلب میں گھر میں تھا اور سویا تھا بستر پر
آویزاں کھڑکی دروازوں پر مکڑی کے جالے تھے
ایسا ہوتا بن سمجھائے بات سمجھ میں آ جاتی
ناحق نادانوں نے چادر باہر پاؤں نکالے تھے
غور سے دیکھو وہاں کہیں سے کچھ بادل گزرے ہوں گے
آسمان کی جانب ہم نے دریا جہاں اچھالے تھے
شاید تم نے دیکھ لیا تھا اسی لیے محفوظ رہے
ویسے تو پروازؔ سبھی نے ہم پر ڈورے ڈالے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.