پڑی جو ضرب تلاطم رگ حسین پہ ایک
میں آسماں میں کئی تھا گرا زمین پہ ایک
کہیں قریب پھٹکتا نہ تھا مرا سایہ
لئے عقاب وہ چلتا تھا آستین پہ ایک
سمٹ سمٹ گیا ہر واقعے کا پیراہن
نہ تھی طلسم کی تہہ چشم خوردبین پہ ایک
اکیلا خود تھا مجھے کیوں قصوروار کیا
لکھا جو شعلۂ جوالہ سے جبین پہ ایک
رتوں کو کچھ نہ ملا ایک ذائقے کے سوا
نحیف جسم یہ بھاری کبھی تھا تین پہ ایک
لباس تج کے عجب بے بسی میں تھے اشجار
وہ اژدہا سا تڑپتا رہا زمین پہ ایک
اسی کے شور کے پیچھے گرجتے تھے بادل
عجیب بوند تھی ٹپکی تھی گھر کے ٹین پہ ایک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.