پہاڑوں کو بچھا دیتے کہیں کھائی نہیں ملتی
پہاڑوں کو بچھا دیتے کہیں کھائی نہیں ملتی
مگر اونچے قدم رکھنے کو اونچائی نہیں ملتی
اکیلا چھوڑتا کب ہے کسی کو لا شعور تن
کسی تنہائی میں بھرپور تنہائی نہیں ملتی
غنیمت ہے کہ ہم نے چشم حسرت پال رکھی ہے
زمانے کو یہ حسرت بھی مرے بھائی نہیں ملتی
فسون ریگ میں موجیں بھی ہیں دلدل بھی ہوتے ہیں
مگر صحرا سمندر تھے یہ سچائی نہیں ملتی
تری خالص کرن کی آگ ہے طیف تصور میں
قزح بنتی نہیں مجھ میں تو بینائی نہیں ملتی
نچوڑی جا چکی ہے مٹی اکہرا ہو گیا پانی
عناصر مل بھی جاتے ہیں تو رعنائی نہیں ملتی
غزل کہہ کے سکوں تفضیلؔ ملتا ہے مگر مٹی
اسے لاوا اگل کر بھی شکیبائی نہیں ملتی
- کتاب : Teksaal (Pg. 64)
- Author : Tafzeel Ahmad
- مطبع : kasauti Publication (2016)
- اشاعت : 2016
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.