پہن کر دست و پا میں آہنی زیور نکلتے ہیں
پہن کر دست و پا میں آہنی زیور نکلتے ہیں
ترے وحشی بہ سوئے دار بن ٹھن کر نکلتے ہیں
بغاوت کی ہوا جب بھی دکھاتی ہے اثر اپنا
تو پھر سنجیدہ لوگوں میں بھی کچھ خود سر نکلتے ہیں
کوئی مجھ کو یہ بتلائے کہ اجلے پیرہن والے
اندھیری رات کے عالم میں کیوں باہر نکلتے ہیں
جنہیں دعویٰ ہے گلشن میں گلوں کی پاسبانی کا
پس پردہ وہی پھولوں کے سودا گر نکلتے ہیں
ہم اس بستی کو فرزانوں کی بستی کہہ نہیں سکتے
یہاں تو اک ذرا سی بات پر خنجر نکلتے ہیں
زمانے میں ظفرؔ لوگوں کا اندازہ ہی مشکل ہے
جنہیں نازک بدن سمجھو وہی پتھر نکلتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.