پہلے سا رنگ روپ تمہارا نہیں رہا
پہلے سا رنگ روپ تمہارا نہیں رہا
دنیا میں اور کچھ بھی ہمارا نہیں رہا
ایسے نکل گیا ہے حدود و قیود سے
دریا کے آر پار کنارا نہیں رہا
تجھ سے بچھڑ کے دل کا وہ نقصان ہو گیا
اب تو کوئی خسارہ خسارہ نہیں رہا
چاروں طرف ہے سرخ اشاروں کا جمگھٹا
رستے میں کوئی سبز اشارہ نہیں رہا
وہ سب کے سب فلک نے ہیں اوپر اٹھا لیے
زیر زمین کوئی ستارہ نہیں رہا
آدھا گنوا کے آپ کی چیخ و پکار ہے
لیکن ہمارے پاس تو سارا نہیں رہا
کتنا پڑا ہے فرق مری ماں کی موت سے
اب میں کسی کی آنکھ کا تارا نہیں رہا
لے جا رہے ہو کیسے مرا دل نکال کر
کیا میں تمہارا سارے کا سارا نہیں رہا
مٹی میں جا ملا ہے سکندر بھی جیت کر
ایسا نہیں کہ ہار کے دارا نہیں رہا
یخ بستہ پانیوں کی طرح جم کے رہ گیا
جب سے لہو میں کوئی شرارہ نہیں رہا
کچھ اور سرپھروں کو بھی وحشت نے آ لیا
مجنوں کا دشت پر وہ اجارہ نہیں رہا
مسعودؔ اپنے پاؤں پر ہم کیا کھڑے ہوئے
بیساکھیوں کا کوئی سہارا نہیں رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.