پہلے وہ دیوار پر نقشہ لگائے
پہلے وہ دیوار پر نقشہ لگائے
بعد میں رستوں کا اندازہ لگائے
جانے سورج نے ندی سے کیا کہا ہے
بہہ رہی ہے دھوپ کا چشمہ لگائے
چاند کی آنکھیں بڑی دکھنے لگیں گی
رات گر سرمہ ذرا گہرا لگائے
میں سمندر کے سفر سے لوٹ آؤں
وہ اگر آواز دوبارہ لگائے
شام کا دل کل ہی ٹوٹا آج پھر کیوں
آ گئی امید کا چہرہ لگائے
جنگلوں میں میل کے پتھر نہیں ہیں
دوریوں کا کون اندازہ لگائے
جھانکتی ہے کانچ سے پھر دھوپ گھر میں
کہہ دو کھڑکی سے کوئی پردہ لگائے
چاند اترے جھیل میں اس کی بلا سے
چاندنی کیوں رات بھر پہرہ لگائے
منزلیں پہلے ہی ساری ہار بیٹھا
داؤں پر رستہ بھلا اب کیا لگائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.