پہلے وہ قید مرگ سے مجھ کو رہا کرے
پہلے وہ قید مرگ سے مجھ کو رہا کرے
پھر ہو تو بے وفائی کا بے شک گلہ کرے
اب کشمکش کے بوجھ کی طاقت نہیں رہی
اب دل میں کوئی آس نہ جاگے خدا کرے
ہو شمع تو بتائے کہ جلتے ہیں کس طرح
جگنو بھی مر گئے ہوں تو پروانہ کیا کرے
وہ حکم دے رہے ہیں مگر سوچتے نہیں
کس طرح کوئی دل کو جگر سے جدا کرے
وہ مشتعل کہ ضد کی بھی ہے انتہا کوئی
ہم منتظر کہ آج مگر ابتدا کرے
اندر کا باغ جس کا بدل جائے دشت میں
وہ شخص تیرے پھول سے چہرے کو کیا کرے
خیرات بھی ملی نہ جہاں سے تمام عمر
اخترؔ وہیں پہ آج بھی بیٹھا دعا کرے
- کتاب : Nasiim Durraaniz (Pg. 236)
- Author : Nasiim Durraani
- مطبع : Fikr-e-Nau (39 (Quarterly))
- اشاعت : 39 (Quarterly)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.