پہنچ کر شب کی سرحد پر اجالا ڈوب جاتا ہے
پہنچ کر شب کی سرحد پر اجالا ڈوب جاتا ہے
نہ ہو جس کا کوئی وہ بے سہارا ڈوب جاتا ہے
جسے گاتا ہے کوئی بربط صد چاک داماں پر
فضائے بے یقینی میں وہ نغمہ ڈوب جاتا ہے
یہاں تو دل کی باتیں ہیں ہمارا تجربہ ہے یہ
جو سطح آب پر رکھیے تو پیسہ ڈوب جاتا ہے
تعلق دیر سے مضبوط کرتا ہے جڑیں اپنی
ذرا سی چوک سے صدیوں کا رشتہ ڈوب جاتا ہے
تری یادوں کی دنیا سے کبھی جو دور ہوتا ہوں
اداسی گھیر لیتی ہے نظارا ڈوب جاتا ہے
نہ جانے کیا ہو تیرے شہر میں اب جا کے دیکھوں گا
یہاں تو اپنی قسمت کا ستارہ ڈوب جاتا ہے
ابل پڑتا ہے آفت کا کہیں لاوا تو پھر انجمؔ
غم و اندوہ میں معصوم چہرہ ڈوب جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.